۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
غافر

حوزہ/ دشمن کے اسلحہ میں اتنا دم نہیں کہ قاسم سلیمانی کی یادوں کو دنیا سے مٹا سکے، اس کی ہزار کوششوں سے قاسم سلیمانی ضرور ہماری نگاہوں سے پنہاں ہوگئے لیکن قاسم سلیمانی آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ و پائندہ رہیں گے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی (مدیرساغرعلم - دہلی)

حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو زمانہ کو نشیب و فراز کا سامنا ہوتا ہی رہتا ہے لیکن بعض ایسے حوادث و سانحات پیش آجاتے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے، اگر زمانہ بھلانا بھی چاہے تو خون ناحق کا جوش، ضمیر انسانیت کو جھنجھوڑ کر یاد دلاتا رہتا ہے کہ یہ واقعہ بھلانے والا نہیں ہے!۔
ایسا ہی کچھ سانحہ 3 جنوری سن 2020 عیسوی میں سرزمین عراق پر پیش آیا، وہ سانحہ اتنا یادگار قرار پایا کہ رہتی دنیا تک تاریخ کی پیشانی پر تحریری صورت میں موجود رہے گا۔ ابوالفضل العباس علیہ السلام کے پیروکار " قاسم سلیمانی" نے شہید ہوکر اور اپنے جسم سے اپنے ہاتھوں کو جدا کرکے یہ ثابت کردیا کہ ہم شہید ہورہے ہیں لیکن مر نہیں رہے ہیں بلکہ حیات ابدی کے مستحق قرار پا رہے ہیں، اگر آج تم ایک قاسم سلیمانی کو مٹانا چاہتے ہو تو ظاہراً تم اپنے ارادہ میں کامیاب ہوسکتے ہو لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک قاسم سلیمانی کے اٹھ جانے کے بعد نہ جانے کتنے قاسم سلیمانی کھڑے ہوجائیں گے!۔
آخر وہ سانحہ کیسے بھلایا جاسکتا ہے جس میں دو بہادر لوگوں کو بزدلانہ طریقہ سے شہید کیا گیا!۔ بہادری تو یہ ہوتی ہے کہ دونوں حریف مد مقابل کھڑے ہوں اور دونوں طرف سے برابر کے وار ہوتے رہیں، بم کے ذریعہ کسی کو شہید کردینا نہ تو بہادری ہے نہ ہی اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے کیونکہ اسلام نے نہ تو نہتے انسان پر وار کرنے کی دعوت دی ہے نہ ہی دھوکہ سے مارنے کی طرف ترغیب دلائی ہے اور نہ ہی بزدلانہ طریقوں کو اپنانے کی تائید کی ہے بلکہ یہ سب طریقے اسلامی نقطۂ نگاہ سے غلط اور غیر اخلاقی ہیں۔
اسلام نے کسی سے دشمنی کرنے کی دعوت ہرگز نہیں دی لیکن اگر کوئی زبردستی دشمن پیدا ہوگیا ہے تو اس دشمن سے لڑنے کے بھی اصول معین کئے ہیں اور ان اصول و قوانین میں سے ایک اصل یہ ہے کہ اگر جنگ ہورہی ہے تو مقابلہ برابر کا ہونا چاہئے یعنی اگر سامنے والے کے پاس بندوق ہے تو آپ بھی بندوق لیکر چلیں، اگر سامنے والے کے پاس تلوار ہے تو آپ کے ہاتھوں میں بھی تلوار ہونی چاہئے، اگر سامنے والا بھالا لایا ہے تو آپ بھی بھالا سنبھال لیجئے، اگر سامنے والا بم سے وار کر رہا ہے تو آپ بھی بم ہی ماریئے لیکن اگر سامنے والا نہتا ہے تو آپ کو کسی بھی طرح یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی اسلحہ کے ذریعہ وار کریں چہ جائیکہ بزدلانہ طریقہ سے پشت پر وار کیا جائے اور گاڑی پر جاسوسی طیارہ کے ذریعہ حملہ کرکے بہادروں کو شہید کیا جائے! اور اس کے علاوہ بھی شرائط ہیں جو دین اسلام نے معین کئے ہیں کہ سامنے والے پر کیسے وار کرنا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے جنگ کی دعوت ہی نہیں دی ہے بلکہ اسلام نے دفاع کا حق دیا ہے، اگر آپ پر کوئی حملہ کر رہا ہے تو آپ پر دفاع کرنا واجب ہے لیکن آپ کی جانب سے ابتدا نہیں ہونی چاہئے! وہ کیسے نام نہاد اسلامی جامہ پہنے ہوئے تھے کہ جنگ میں ایک زنانہ طریقہ آزمایا؟؟ ۔
قاسم سلیمانی تو مسکراتے ہوئے عروس شہادت سے بغلگیر ہوگئے لیکن ان کی شہادت کے بعد جو زمانہ نے انگڑائی لی ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے، یقیناً قارئین کرام کو یہ یاد ہوگا کہ کرونا جیسی مہلک وبا کا آغاز قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہی ہوا ہے گویا اگر تم ہمیں مٹانا چاہو گے تو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ زمانہ کے ڈاکٹر اس کا علاج تلاش کرتے کرتے پریشان ہوجائیں گے!۔
داعش کی فوج قاسم سلیمانی اور ان کے قریبی دوست "ابو مہدی المہندس"کو اپنی راہ کا سب سے بڑا کانٹا سمجھتی تھی یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ اس تلاش میں رہتی تھی کہ کب قاسم سلیمانی تنہا اور نہتے ملیں اور ان کا کام تمام کیا جائے! یعنی دشمن میں اتنی طاقت و ہمت ہی نہیں تھی کہ قاسم سلیمانی جیسے شیر کا مقابلہ کرسکے یہی تو وجہ تھی کہ بزدلانہ طریقہ سے حملہ کیا گیا ورنہ کس میں اتنی مجال تھی کہ قاسم سلیمانی کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے! یہ تو وہ شیر تھا کہ دشمنوں کے نرغہ میں نہتا تھا اور اس کے باوجود صدام کی قبر کے نزدیک والے ہوٹل میں چائے پی کر آیا تھا، کیا ایسے بہادر انسان کی شان والا صفات میں کوئی یہ گستاخی کرسکتا تھا کہ اس کے سامنے آجائے؟ ایسا کام تو وہی نادان کرسکتا تھا جسے اپنی جان پیاری نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن ڈرپوک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت چالاک بھی تھا اور اسے قاسم سلیمانی کی بہادری کا علم بھی تھا!گویا یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی ، یعنی قاسم سلیمانی پر اچانک حملہ نہیں ہوا بلکہ دشمنانِ قاسم مہینوں سے پلاننگ کر رہے تھے کہ اس شیر کا کون سے اسلحہ سے شکار کیا جائے! ۔
آخر کار داعشی فوج نے جاسوسی طیارہ کے ذریعہ ان دو کمانڈروں کو شہید کردیا لیکن جو پائلٹ ان کی شہادت کا سبب قرار پایا، زمانہ نے اس کی موت کا بھی نظارہ کیا کہ وہ کیسی بری موت مرا!، جس جہاز میں وہ سفر کررہا تھا اس کے ایسے پراخچہ اڑے کہ اس پائلٹ کے اعضائے بدن بھی نہ مل سکے، اس کے ذریعہ خداوندعالم نے پوری دنیا کو یہ بتادیا کہ ظلم کبھی بھی پھولتا پھلتا نہیں ہے، آخرت میں جو ظالم کو عذاب دیا جائے گا وہ تو الگ ہے، خود اس دنیا میں بھی اپنے کئے کی سزا پاتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر اس وقت قاسم سلیمانی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے تو افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام ناممکن تھا! نام نہاد مسلمانوں نے قاسم سلیمانی کو شہید کرکے اپنے ہی پیروں میں کلہاڑی ماری ہے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس دنیا میں ایسی ایسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جو بیان کی محتاج نہیں ہے کیونکہ تمام مناظر پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں!۔ قاسم سلیمانی کے بعد جو اموات کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کسی ایک خطہ سے مخصوص نہیں رہا بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ وباؤں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ تمام حکومتوں کو پریشان کئے ہوئے ہے اور دنیا سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، ایک وبا ختم نہیں ہونے پاتی کہ دوسری وبا کی دستک سنائی دینے لگتی ہے۔ کبھی کرونا کی پہلی لہر تو کبھی دوسری لہر، کبھی تیسری لہر گویا ایک ہی وبا ہے جو نام بدل بدل کر اور ابلیس کی مانند لباس بدل بدل کر دنیا کے سامنے آرہی ہے! اب اس کی حقیقت کیا ہے اس کا اصل علم تو خدا کے پاس ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد زمانہ تباہی کے گھاٹ پہنچ چکا ہے۔
وزارت صحت کی انتہک کوششوں کے باوجود اموات کا سلسلہ جاری و ساری رہا، تمام اسپتالوں میں کیا کیا ڈرامے ہوئے وہ سب بھی دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہیں، اب اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنی دھوکہ دھڑی! یہ خدا ہی بہتر جانے، بہرحال! قاسم سلیمانی کی مفارقت نے دنیا کو تہہ و بالا کردیا۔
اگر قاسم سلیمانی ہمارے درمیان موجود ہوتے تو شاید زمانہ میں یہ تغیرات رونما نہ ہوتے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، قاسم سلیمانی کا خون ناحق بہ بانگ دہل دنیاکو بتا رہا ہے کہ "یہ خون ہے، پانی نہیں، ٹپکا تو جمے گا"۔ خون ناحق چھپائے نہیں چھپتا اور خون بہانے والے کو اس کی مہنگی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایک انمول اور انوکھا واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ اپنے گمان میں خود کو سوپر پاور سمجھنے والا امریکہ جس کو اپنے جاسوسی طیارہ پر ناز تھا اور اس کا یہ دعویٰ تھا ہمارا یہ طیارہ کسی بھی راڈار پر دکھائی نہیں دے سکتا! اس طیارہ کو ایران نے اس طرح اپنے قابو میں کیا کہ زمانہ محو حیرت ہوگیا اور امریکہ کو منھ کی کھانی پڑی اور اس سے پہلے بھی ایران نے امریکہ کا ایک جاسوسی طیارہ اپنے قابو میں کیا تھا جس نے دنیا کے سامنے امریکہ کی ناک نیچی کردی تھی اور امریکہ ایسا تلملا گیا تھا کہ ایران پر ہزاروں پابندیوں کے باوجود مزید پابندیاں بھی عائد کردی تھیں! لیکن شاید وہ امام خمینی ؒ کے جملہ کو بھلا بیٹھا ہے کہ "جب ہم نے اللہ اکبر کہہ دیا تو اب ہمارے سامنے اللہ کے سوا کوئی سوپر پاور نہیں ہے، ہم اسی کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ہمیشہ اسی کے آگے سر تسلیم خم کرتے رہیں گے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی سوپر پاور بنتا رہے اور اپنے آپ کے لئے سوپر پاور ہوسکتا ہے، پوری دنیا کے لئے سوپر پاور ہوسکتا ہے لیکن ان لوگوں کے سامنے سوپر پاور نہیں ہوسکتا جو واقعاً خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں، جنہوں نے خدا کی ذات کو سوپر پاور مانا ہے وہ کسی دوسری طاقت کو ہرگز سوپر پاور نہیں مان سکتے!کیونکہ حقیقت توحید یہی ہے کہ وہ صرف ایک ہے۔
اگرچہ آج ہمارے درمیان قاسم سلیمانی نہیں ہیں لیکن ان کے افکار، ان کا مشن، ان کی سوچ سب کچھ زندہ ہے اور رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی کیونکہ اگر ایک قاسم سلیمانی کو وداع کردیا گیا تو نہ جانے کتنے قاسم سلیمانی پیدا ہوچکے ہیں، دشمن کو اس بات کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا کہ قاسم سلیمانی کو شہید کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی، اب وہ کتنے قاسم سلیمانی کو شہید کرے گا، کتنے ابو مہدی المہندس پر بم برسائے گا!!۔
دشمن کے اسلحہ میں اتنا دم نہیں کہ قاسم سلیمانی کی یادوں کو دنیا سے مٹا سکے، اس کی ہزار کوششوں سے قاسم سلیمانی ضرور ہماری نگاہوں سے پنہاں ہوگئے لیکن قاسم سلیمانی آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ و پائندہ رہیں گے۔
آخر کلام میں خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم ! ہمیں زیادہ سے زیادہ قاسم سلیمانی اور ان جیسے ہمدردان اسلام کے افکار کو زندہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرما۔ "آمین" والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .